میرٹ بمقابلہ گریڈ
تعلیم ہار رہی ہے
آزادکشمیر میں میرٹ کا بول بالا ہے۔ میرٹ کے کیا کہنے، پرائمری اور جونیئر ٹیچرز کے لئے این ٹی ایس کانفاذ، سینئر ٹیچر اور گزٹیڈ پوسٹوں کیلئے پبلک سروس کمیشن کا نفاذ ہو چکا ہے اور عمل درآمد بھی جاری ہے، این ٹی ایس کے کڑے امتحان سے گزرنے کے بعد دس نمبر کے انٹرویو کی مصیبت جھیل لینے والے بی اے، بی ایڈ، ایم اے ایم ایڈ، ایم فل ڈگریوں کے حامل امیدواروں کو معرکہ سر کر لینے کے بعد گریڈ سات میں پرائمری ٹیچر اور گریڈ نو میں جونیئر ٹیچر تعینات کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں تعلیم کو سالوں کے حساب سے گنا جاتا ہے، 16 سالہ تعلیم،18سالہ تعلیم اور 20 سالہ تعلیم اور ساتھ ڈگری حاصل کرنے والوں کو کڑے میرٹ کے پل صراط سے گزار کر حکومت نوکری فراہم کرتی ہے۔
ایک سادہ بی اے ، بی ایڈ ڈگری کا حامل طالب علم زندگی کے 14سال تعلیمی اداروں میں لگا کر وہ بی اے کرتا ہے اور اگر بیچ میں ایک آدھ بار فیل ہو جائے تو ڈگری کی تکمیل کا دورانیہ پندرہ سے سولہ سال تک چلا جاتا ہے، عموماً پاکستان میں آج سے دس پندرہ سال قبل بچے کو چار سے پانچ سال کی عمر میں سکول چھوڑا جاتا تھا جہاں وہ قائدہ جماعت یا پریپ کی کلاس لینے کے بعد ڈگری کے حصول کی ریس میں پانچ سے چھ سال کی عمر میں شامل ہوتا تھا اور اگر خوش قسمتی سے اس نے کبھی کوئی امتحان فیل نہ کیا ہو تو وہ 20 سال یا 21سال کی عمر میں بی اے مکمل کر لیتا ہے جس کے بعد تین سال مزید پڑھنے کے بعد وہ بی ایڈ کی ڈگری حاصل کرتا ہے یوں ایک بی اے بی ایڈ ڈگری کے حامل شخص کو کم از کم 17 سال پڑھنا پڑتا ہے تب جا کر وہ اس اہل ہوتا ہے کہ پرائمری یا جونیئر ٹیچر بھرتی ہو سکے اور بھرتی کے وقت اس ٹیچر کو سکیل7اور 9 میں ملازمت ملتی ہے، اگر طالب علم نے ایم اے ایم ایڈ کیا ہے تو اس کا دورانیہ 19 سال بنتا ہے مگر سینئر ٹیچر کی پوسٹ اسکے لئے آنا انہونی سی بات ہے کیونکہ سینئر ٹیچر کی پوسٹ پر سب سے پہلا حق ان جونیئر ٹیچرز کا ہوتا ہے جنہوں نے بطور پرائمری ٹیچر اور جونیئر ٹیچر مطلوبہ تجربہ کے بع اس پوسٹ کا اہل ہوتا ہے لہذا آٹے میں نمک کے برابر کبھی کبھار سینئر ٹیچر کی پوسٹ آ جاتی ہے اس لئے زیادہ تر جونیئر اور پرائمری ٹیچر ہی ایم اے ایم ایڈ کرتے ہیں تاکہ ترقی کی منازل طے کر سکیں۔
اب ایک نظر دوسری جانب بھی ڈال لیتے ہیں۔ ریاست میں جونیئر کلرک کا سکیل 11 ہوتا ہے اور تعلیمی قابلیت صرف بی اے ہے جو کچھ عرصہ پہلے تک میٹرک اور مابعد ایف اے ہوا کرتی تھی اب حکومت نے اس تعلیمی قابلیت کو اپ گریڈ کر کے بی اے کر دیا ہے یعنی ایک جونیئر کلرک صرف 14 برس پڑھ کر 11ویں سکیل میں بھرتی ہونے کا اہل ہے جبکہ 17 برس تعلیمی اداروں میں جھک مارنے والاکم تعلیم یافتہ شخص کے مقابلے میں 4 سکیل کم پر ملازمت اختیار کرتا ہے جبکہ اگر جونیئر ٹیچر بھی بھرتی ہو جائے تو بھی وہ سکیل کے حساب سے 2درجے کم ہی ہوتا ہے۔
اب گزٹیڈ پوسٹوں پر بھی نظر ڈال لی جائے تو بھی کئی حقائق کھل کر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ماسٹرز ڈگری کا حامل آدمی 16 سال لگا کر ڈگری مکمل کرتا ہے اور لیکچرار، اسسٹنٹ لیکچرار سمیت تمام گزٹیڈ پوسٹوں کا اہل ہو جاتا ہے۔ ابھی کچھ ماہ قبل بورڈ آف ریونیو میں آنے والی ایک پوسٹ جو پبلک سروس کمیشن کی جانب سے مشتہر کی گئی سے ہی اندازہ لگا لیجئے کہ ہم نے میرٹ کیا بنا رکھا ہے، اسسٹنٹ بی 16 کی پوسٹ کیلئے تعلیمی قابلیت صرف گریجویشن درجہ دوئم،محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن میں سیکشن آفیسر B-17 کی پوسٹ کی تعلیمی قابلیت محض گریجویشن درجہ دوئم، اسسٹنٹ کمشنر B-17 تعلمی قابلیت گریجویشن درجہ دوئم،محکمہ تعلیم کالجز میں اسسٹنٹ لیکچرارز کی تمام پوسٹوں کی تعلیمی قابلیت صرف ماسٹر اور سب سے بڑھ کر میرٹ کی بالادستی کے لئے بنائے گئے پبلک سروس کمیشن کے اپنے اسسٹنٹ B-17 کی پوسٹ کی تعلیمی قابلیت صرف گریجویشن۔
یہ سوال ہر اس آدمی کے ذہن میں اٹھتے ہیں جو ڈگری کے حصول کیلئے آدھی زندگی تعلیمی اداروں میں برباد کر دینے کے بعد ساتویں اور نویں سکیل میں بھرتی ہوتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنی میرٹ پالیسی پر نظر ثانی کرے اور اس میں موجود ان باریک نقاط پر بھی کبھی غور کر لے کہ کیا یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کہ زیادہ تعلیم والا کم درجہ کا ملازم اور کم تعلیم والا زیادہ درجے کا ملازم بننے کا اہل ہو؟۔ یقیناًتعلیم حاصل کرنے کا واحد مقصد نوکری حاصل کرنا نہیں ہوتا تاہم معاشرے میں باعزت مقام حاصل کرنا تبھی ممکن ہے جب سکیل کی تقسیم تعلیم کے حساب سے کی جائے ۔
No comments:
Post a Comment