Friday, October 26, 2018

نمبردار نیاز علی چوھدری۔۔۔۔۔ ایک درویش صفت انسان۔۔۔۔۔۔تحریر: راجہ عرفان صادق




نمبردار نیاز علی چوھدری۔۔۔۔ اک درویش صفت انسان

تحریر: راجہ عرفان صادق
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی 
اک شخص سارے شہر کو ویراں کر گیا
یہ شعر سال ہا سال سے سنتا چلا آرہا ہوں لیکن اس کی حقیقت اس وقت آشکارا ہوئی جب ضلع میرپور سے تعلق رکھنے والی ہر دلعزیز شخصیت نمبردار نیاز علی چوھدری اس دار فانی سے اچانک کوچ کرگئی۔ علاقہ مواہ رڑاہ سے تعلق رکھنے والے نمبردار ابراہیم قیام پاکستان سے قبل ہی فوج میں ملازم تھے اور 1935ء میں فوج سے ریٹائر منٹ کے بعد اپنے آبائی علاقہ مواہ رڑاہ میں رہائش پذیر ہوئے۔ وہ علاقہ کے نمبر دار تھے اور پورے علاقہ میں اچھی شہرت سے جانے پہچانے جاتے تھے۔ نمبردارابراہیم کے پانچ بیٹے تھے جن میں تیسرا نمبر نیاز علی چوھدری کا تھا۔ نمبردار ابراہیم کے سابق وزیر اعظم آزادکشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوھدری کے والد چوھدری نور حسین مرحوم سے 1947سے گہرے مراسم چلے آرہے تھے۔ نمبردار ابراہیم کی وفات کے بعد ان کے بیٹے نمبردار نیاز علی چوھدری نے اپنی مرحوم والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے چوھدری نور حسین مرحوم کے ساتھ گہرے مراسم کو مزید تقویت پہنچائی اور دوستی اور تعلق داری کا یہ سلسلہ مزید گہرا ہوتا گیا۔ 1983ء میں بیرسٹر سلطان محمود چوھدری جب برطانیہ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس آئے اور عملی سیاست میں قدم رکھا تو چوھدری نور حسین مرحوم نے نمبردار نیاز علی چوھدری کے ساتھ بیرسٹر سلطان محمود چوھدری کا تعارف کروایا اور انہیں تاکید کی کہ اگر سیاست میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو نمبردار نیاز علی چوھدری کا ساتھ کبھی نہ چھوڑنا، تمہیں اس سے زیادہ مخلص ساتھی اور کوئی نہیں ملے گا۔ بیرسٹر سلطان محمود چوھدری اور نمبردار نیاز علی کے درمیان دوستی کا یہ سفر اتنا گہرا ہوگیا کہ جب بیرسٹر سلطان محمود چوھدری 1996میں وزیر آزادکشمیر بنے تو نمبردار نیاز علی کی ان سے قرابت داری کی وجہ سے لوگ انہیں ڈپٹی وزیر اعظم کے لقب سے پکارنے لگے۔بیرسٹر سلطان محمود چوھدری نے بطور وزیر اعظم برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر سے ملاقات کی تو اس سات رکنی وفد میں نمبردارنیاز علی چوھدری بھی شامل تھی جبکہ اس وقت کئی قدآور نام حسرت بھری نگاؤں سے باہر ہی کھڑے رہے۔ نمبردار نیاز علی چوھدری 1958کو پیدا ہوئے ۔ اگرچہ وہ کم تعلیمی پس منظر کے حامل تھے تاہم اپنی سوچ، فکر اور فہم و فراست سے انہوں نے وہ مقام حاصل کرلیا جو بڑوں بڑوں کو نصیب نہیں ہوتا۔ سیاست سے انہیں گہرا لگاؤ تھا اور وہ ٹیبل ٹاک کے ماہر جانے جاتے تھے۔ بڑے سے بڑا سیاسی لیڈر، وزیر اعظم، وزیر ، مشیر، صحافی، بیوروکریٹ، یاکسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والا شخص ان کے سامنے کوئی بھی بات کرنے سے پہلے کئی بار سوچتا تھا۔ نمبردار نیاز علی چوھدری 1987میں بی ڈی ممبر منتخب ہوئے۔ وہ ایک مرتبہ چیرمین زکوۃ بھی رہے۔ ان کو چوھدری نور حسین مرحوم کے قریبی ساتھی کو طور پر جانا جاتا تھا ۔لوگ انہیں چوھدری نور حسین کا شاگردِ خاص سمجھتے تھے۔ حلقہ نمبر دو میں الیکشن لڑنے والے امیدوران ان کا تعلق خواہ کسی بھی جماعت یا برادری سے ہو وہ نمبردار نیاز علی چوھدری سے سیاسی داؤ پیچ سیکھنا اپنی سعادت مندی سمجھتا تھا ۔ وہ نئے الیکشن لڑنے والوں کے لیے یونیورسٹی کا درجہ رکھتے تھے۔ ضلع میرپور کی صحافتی برادری کے ساتھ بھی ان کے خاص اور برادرانہ مراسم تھے اور ان کی حاضر دماغی اور برجستہ جملوں کی وجہ سے اعلیٰ پائے کے صحافی بھی ان کے سامنے لب کشائی کرنے سے پہلے کئی بار سوچتے تھے۔ نمبردار نیاز علی چوھدری نے مواہ کے اندر "ڈیرہ نمبرداراں"کے نام سے ایک ڈیرہ قائم کررکھا تھا جس میں ہر وقت سیاسی گہما گہمی رہتی تھی اور تمام سیاسی جماعتوں کے امیدواران اور کارکنان اپنی سیاسی پیاس بجھانے کے لیے یہاں آتے تھے۔ انتخابات یا پھر کسی بھی دوسری سیاسی گہما گہمی کے دور میں ڈیرہ نمبرداراں کی رونقیں عروج پر پہنچ جاتی تھیں اور دن و رات میلے کا سا سماں لگتا تھا۔ حلقہ بلکہ ضلع بھر کے سیاستدان جن کا آپس میں بڑے سے بڑا اختلاف ہی کیوں نہ ہونمبردار نیاز علی کی میز پر سب شیر و شکر ہوجاتے تھے۔ لوگوں کے ساتھ ان کے تعلقات علاقہ و برادری ازم سے بالا تر ہوکرتھے اور ان کے تعلقات ہر ایک کے ساتھ اتنے گہرے ہوتے کہ ہر کوئی انہیں اپنی برادری کا ہی سمجھتا۔ نمبردار نیاز علی مرحوم کچھ عرصہ قبل فیملی سمیت میرپور رہائش پذیر ہوگئے لیکن اپنے علاقہ کی عوام کے ساتھ انہوں نے تعلق کمزور نہ ہونے دیا۔ ڈیرہ نمبرداراں کا قیام اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھی۔ وہ ہر روز اپنے آبائی علاقہ میں آتے اور لوگوں سے ملاقاتیں کرتے۔ نمبردار نیاز علی چوھدری اگرچہ خود پڑھے لکھے نہیں تھے تاہم انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی ۔ ان کے فرزند چوھدری ابرار نیاز ایڈوکیٹ کا شمار منجھے ہوئے نوجوان وکلاء میں ہوتا ہے۔ ان کے ایک دوسرے فرزند غفار نیاز بھی اس وقت میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میرپور کے شعبہ لاء میں وکالت کی ڈگری حاصل کررہے ہیں۔ ان کے دیگر فرزند جبار ، افتخار اور نثار علی بھی اچھی سوچ، سمجھ و فراست کے حامل نوجوان ہیں اور اپنے والد کی طرح علاقہ کا درد اپنے دل میں رکھتے ہیں۔ لوگوں سے ملنساری اور اخلاق کے حوالے سے وہ اپنے مرحوم والد کی تصویر ہیں۔ نمبردار نیاز علی چوھدری کو اولیاء کرام سے خاص لگاؤ تھا اور وہ مختلف درباروں اور خانقاؤں پر حاضری دینا اپنی سعادت مندی سمجھتے تھے۔ پیر شاہ غازی دمڑیاں والی سرکار سے انہیں خاص عقیدت تھی اور وہ عرصہ تقریبا 30برس سے ہر ماہ کی پہلی جمعرات کو سیف الملوک کی محفل کا انعقاد کرتے تھے۔ دمڑیاں والی سرکار کے سالانہ عرس پاک کے موقع پر سینکڑوں جانور ذبح کرکے غرباء اور مساکین کے لیے لنگر کا اہتمام کرتے۔آستانہ عالیہ فیضپور شریف سے بھی خاص عقیدت رکھتے تھے اور حضرت علامہ مولانہ پیر محمد عتیق الرحمان مرحوم سے ان کے گہرے اور قریبی مراسم تھے۔ حضرت علامہ مولانہ حبیب الرحمان محبوبی سجادہ نشین دربار عالیہ فیضپور شریف کے ساتھ بھی گہرے مراسم تھے۔ حضرت پیر محمد زکریا نعمانی دربا ر عالیہ ڈنگروٹ شریف کے ساتھ بھی ان کے قریبی مراسم تھے اور وہ باقاعدگی سے دربارعالیہ ڈنگروٹ شریف پر حاضری دیتے تھے۔ اس کے علاوہ دربارعالیہ کوٹلی ستیاں، حجرہ شاہ مقیم، حضرت میر میراں دربار لاہور (پیر منور حسین شاہ)، بھیرہ شریف، اعوان شریف، گلہار شریف ، تنی شریف (پیر افضال حسین) ، پلیر شریف (ڈڈیال) ، شکریلہ شریف (پیر سید شہزاد حسین شاہ) سمیت دیگر کئی درباروں اور خانقاؤں پر باقاعدگی سے حاضری دیتے تھے۔ نمبردار نیاز علی چوھدری کو شکار کا بھی بہت زیادہ شوق تھے اور جب تک ان کی صحت ٹھیک رہی وہ باقاعدگی کے ساتھ شکار پر جایا کرتے تھے اورشکار کرکے اپنے دوستوں کو مدعو کرکے انہیں اپنا کیا ہوا شکار کھلاتے تھے۔ وہ باغبانی اور زمینداری سے بھی خاص شغف رکھتے تھے اور ڈیرہ نمبرداراں اور اپنی رہائش گاہ میرپور میں خاص طور پر لان تیار کروایا ہوا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ جب بھی کوئی ان کا قریبی ساتھی لان تیار کرنے کے بارے میں سوچتا تو وہ انہیں مفید مشوروں سے نوازتے۔ نمبردار نیاز علی چوھدری 10اکتوبر2018ء بروز بدھ مختصر علالت کے بعد پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس اسلام آباد میں اس دنیا کو خیر باد کہہ گئے۔ 
ٹُرچلے دلدار دلاں دے وطنوں چُک مہاراں
اجڑی بستی نظری آوے کَنڈ دتی جد یاراں
نمبردار نیاز علی چوھدری کی نماز جنازہ11اکتوبر بروز جمعرات ڈیرہ نمبرداراں کے نزدیک ادا کی گئی جس میں ضلع میرپور، بھمبر، کوٹلی اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔نماز جنازہ میں ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد موجود تھے۔ حضرت علامہ پیر محبوب الرحمان محبوبی سجادہ نشین دربار عالیہ فیضپور شریف نے نماز جنازہ پڑھائی۔ اس موقع پر سابق وزیرا عظم آزادکشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوھدری، سابق وزیر اعظم چوھدری عبدالمجید،اپوزیشن لیڈر چوھدری محمد یاسین، سابق امیدوار ان اسمبلی محمد نذیر انقلابی، چوھدری ظفر انور،محمد عارف چوھدری، سائیں ذوالفقار علی، چوھدری محمد رزاق، عظیم بخش چوھدری، سابق چیف جسٹس آزادکشمیر خان اعظم خان سمیت سابق ججز، بیوروکریٹس، پولیس، تعلیم،پریس ، عدلیہ کی کئی دیگر نامور شخصیات موجود تھیں۔ اس موقع پر سابق وزیر اعظم بیرسٹر سلطان محمود چوھدری سمیت ہر شخص آبدیدہ تھا۔ نماز جنازہ کے موقع پر بیرسٹر سلطان محمود چوھدری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نمبردار نیاز علی میرے دست راست تھے۔ میں نے جب عملی سیاست میں قدم رکھا تو میرے والد محترم چوھدری نور حسین مرحوم نے نمبردار نیاز علی سے میرا تعارف کروایا اور مجھے کہا کہ یہ شخص تمہارا مخلص ساتھی ثابت ہوگا اور کبھی بھی تمہارا ساتھ نہیں چھوڑے گا اور نمبردار نیاز علی نے یہ سچ ثابت کردیا۔ سیاست کے میدان میں اتارچڑھاؤ کے باوجود انہوں نے کبھی بھی میرا ساتھ نہیں چھوڑا اور اچھے اور برے وقت میں میرے ساتھ کھڑے رہے۔ ان جیسا سچا اور کھرا انسان میں نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھا۔ وہ ظاہر و باطن ایک جیسا تھا ۔ وہ ایک کھلی کتاب کی مانند تھے۔ مجھے ہمیشہ ان کی کمی محسوس ہوتی رہے گی۔ اس موقع پر دیگر مقررین نے کہا کہ نمبردار نیاز علی چوھدری درد دل رکھنے والے انسان تھے۔ وہ غربا و مساکین کی مدد کرتے۔ کبھی بھی کوئی ان کے در سے خالی نہیں گیا۔ وہ ایک ملنسار، شفیق ، ہنس مکھ انسان تھے۔ ان کی وفات سے علاقہ ایک ہمدرد شخصیت سے محروم ہوگیا ہے۔ ان جیسے انسان صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ نمبردار نیاز علی چوھدری ایک عہد سازشخصیت تھے اور حلقہ بھر میں ان جیسا کوئی دوسرا شخص نظر نہیں آتا۔ بلاشبہ ان کی وفات سے علاقہ یتیم ہوگیا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ پاک ان کی آخرت کی منازل آسان فرمائیں ، ان کے درجات میں بلندیاں عطا فرمائیں، ان کے لواحقین کو یہ عظیم صدمہ برداشت کرنے کا حوصلہ عطا فرمائیں اور ان کے فرزندان کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین۔ 
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیداور پیدا

No comments:

Post a Comment

How to create You Tube Channel

 How to create you tube channel YouTube is one of the most famous platforms for creating websites, video games, and more. Most of the intern...