Tuesday, October 30, 2018

میرٹ بمقابلہ گریڈ۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر: قاسم نواز خان


میرٹ بمقابلہ گریڈ
تعلیم ہار رہی ہے
آزادکشمیر میں میرٹ کا بول بالا ہے۔ میرٹ کے کیا کہنے، پرائمری اور جونیئر ٹیچرز کے لئے این ٹی ایس کانفاذ، سینئر ٹیچر اور گزٹیڈ پوسٹوں کیلئے پبلک سروس کمیشن کا نفاذ ہو چکا ہے اور عمل درآمد بھی جاری ہے، این ٹی ایس کے کڑے امتحان سے گزرنے کے بعد دس نمبر کے انٹرویو کی مصیبت جھیل لینے والے بی اے، بی ایڈ، ایم اے ایم ایڈ، ایم فل ڈگریوں کے حامل امیدواروں کو معرکہ سر کر لینے کے بعد گریڈ سات میں پرائمری ٹیچر اور گریڈ نو میں جونیئر ٹیچر تعینات کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں تعلیم کو سالوں کے حساب سے گنا جاتا ہے، 16 سالہ تعلیم،18سالہ تعلیم اور 20 سالہ تعلیم اور ساتھ ڈگری حاصل کرنے والوں کو کڑے میرٹ کے پل صراط سے گزار کر حکومت نوکری فراہم کرتی ہے۔ 
ایک سادہ بی اے ، بی ایڈ ڈگری کا حامل طالب علم زندگی کے 14سال تعلیمی اداروں میں لگا کر وہ بی اے کرتا ہے اور اگر بیچ میں ایک آدھ بار فیل ہو جائے تو ڈگری کی تکمیل کا دورانیہ پندرہ سے سولہ سال تک چلا جاتا ہے، عموماً پاکستان میں آج سے دس پندرہ سال قبل بچے کو چار سے پانچ سال کی عمر میں سکول چھوڑا جاتا تھا جہاں وہ قائدہ جماعت یا پریپ کی کلاس لینے کے بعد ڈگری کے حصول کی ریس میں پانچ سے چھ سال کی عمر میں شامل ہوتا تھا اور اگر خوش قسمتی سے اس نے کبھی کوئی امتحان فیل نہ کیا ہو تو وہ 20 سال یا 21سال کی عمر میں بی اے مکمل کر لیتا ہے جس کے بعد تین سال مزید پڑھنے کے بعد وہ بی ایڈ کی ڈگری حاصل کرتا ہے یوں ایک بی اے بی ایڈ ڈگری کے حامل شخص کو کم از کم 17 سال پڑھنا پڑتا ہے تب جا کر وہ اس اہل ہوتا ہے کہ پرائمری یا جونیئر ٹیچر بھرتی ہو سکے اور بھرتی کے وقت اس ٹیچر کو سکیل7اور 9 میں ملازمت ملتی ہے، اگر طالب علم نے ایم اے ایم ایڈ کیا ہے تو اس کا دورانیہ 19 سال بنتا ہے مگر سینئر ٹیچر کی پوسٹ اسکے لئے آنا انہونی سی بات ہے کیونکہ سینئر ٹیچر کی پوسٹ پر سب سے پہلا حق ان جونیئر ٹیچرز کا ہوتا ہے جنہوں نے بطور پرائمری ٹیچر اور جونیئر ٹیچر مطلوبہ تجربہ کے بع اس پوسٹ کا اہل ہوتا ہے لہذا آٹے میں نمک کے برابر کبھی کبھار سینئر ٹیچر کی پوسٹ آ جاتی ہے اس لئے زیادہ تر جونیئر اور پرائمری ٹیچر ہی ایم اے ایم ایڈ کرتے ہیں تاکہ ترقی کی منازل طے کر سکیں۔
اب ایک نظر دوسری جانب بھی ڈال لیتے ہیں۔ ریاست میں جونیئر کلرک کا سکیل 11 ہوتا ہے اور تعلیمی قابلیت صرف بی اے ہے جو کچھ عرصہ پہلے تک میٹرک اور مابعد ایف اے ہوا کرتی تھی اب حکومت نے اس تعلیمی قابلیت کو اپ گریڈ کر کے بی اے کر دیا ہے یعنی ایک جونیئر کلرک صرف 14 برس پڑھ کر 11ویں سکیل میں بھرتی ہونے کا اہل ہے جبکہ 17 برس تعلیمی اداروں میں جھک مارنے والاکم تعلیم یافتہ شخص کے مقابلے میں 4 سکیل کم پر ملازمت اختیار کرتا ہے جبکہ اگر جونیئر ٹیچر بھی بھرتی ہو جائے تو بھی وہ سکیل کے حساب سے 2درجے کم ہی ہوتا ہے۔
اب گزٹیڈ پوسٹوں پر بھی نظر ڈال لی جائے تو بھی کئی حقائق کھل کر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ماسٹرز ڈگری کا حامل آدمی 16 سال لگا کر ڈگری مکمل کرتا ہے اور لیکچرار، اسسٹنٹ لیکچرار سمیت تمام گزٹیڈ پوسٹوں کا اہل ہو جاتا ہے۔ ابھی کچھ ماہ قبل بورڈ آف ریونیو میں آنے والی ایک پوسٹ جو پبلک سروس کمیشن کی جانب سے مشتہر کی گئی سے ہی اندازہ لگا لیجئے کہ ہم نے میرٹ کیا بنا رکھا ہے، اسسٹنٹ بی 16 کی پوسٹ کیلئے تعلیمی قابلیت صرف گریجویشن درجہ دوئم،محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن میں سیکشن آفیسر B-17 کی پوسٹ کی تعلیمی قابلیت محض گریجویشن درجہ دوئم، اسسٹنٹ کمشنر B-17 تعلمی قابلیت گریجویشن درجہ دوئم،محکمہ تعلیم کالجز میں اسسٹنٹ لیکچرارز کی تمام پوسٹوں کی تعلیمی قابلیت صرف ماسٹر اور سب سے بڑھ کر میرٹ کی بالادستی کے لئے بنائے گئے پبلک سروس کمیشن کے اپنے اسسٹنٹ B-17 کی پوسٹ کی تعلیمی قابلیت صرف گریجویشن۔
یہ سوال ہر اس آدمی کے ذہن میں اٹھتے ہیں جو ڈگری کے حصول کیلئے آدھی زندگی تعلیمی اداروں میں برباد کر دینے کے بعد ساتویں اور نویں سکیل میں بھرتی ہوتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنی میرٹ پالیسی پر نظر ثانی کرے اور اس میں موجود ان باریک نقاط پر بھی کبھی غور کر لے کہ کیا یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کہ زیادہ تعلیم والا کم درجہ کا ملازم اور کم تعلیم والا زیادہ درجے کا ملازم بننے کا اہل ہو؟۔ یقیناًتعلیم حاصل کرنے کا واحد مقصد نوکری حاصل کرنا نہیں ہوتا تاہم معاشرے میں باعزت مقام حاصل کرنا تبھی ممکن ہے جب سکیل کی تقسیم تعلیم کے حساب سے کی جائے ۔

Friday, October 26, 2018

نمبردار نیاز علی چوھدری۔۔۔۔۔ ایک درویش صفت انسان۔۔۔۔۔۔تحریر: راجہ عرفان صادق




نمبردار نیاز علی چوھدری۔۔۔۔ اک درویش صفت انسان

تحریر: راجہ عرفان صادق
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی 
اک شخص سارے شہر کو ویراں کر گیا
یہ شعر سال ہا سال سے سنتا چلا آرہا ہوں لیکن اس کی حقیقت اس وقت آشکارا ہوئی جب ضلع میرپور سے تعلق رکھنے والی ہر دلعزیز شخصیت نمبردار نیاز علی چوھدری اس دار فانی سے اچانک کوچ کرگئی۔ علاقہ مواہ رڑاہ سے تعلق رکھنے والے نمبردار ابراہیم قیام پاکستان سے قبل ہی فوج میں ملازم تھے اور 1935ء میں فوج سے ریٹائر منٹ کے بعد اپنے آبائی علاقہ مواہ رڑاہ میں رہائش پذیر ہوئے۔ وہ علاقہ کے نمبر دار تھے اور پورے علاقہ میں اچھی شہرت سے جانے پہچانے جاتے تھے۔ نمبردارابراہیم کے پانچ بیٹے تھے جن میں تیسرا نمبر نیاز علی چوھدری کا تھا۔ نمبردار ابراہیم کے سابق وزیر اعظم آزادکشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوھدری کے والد چوھدری نور حسین مرحوم سے 1947سے گہرے مراسم چلے آرہے تھے۔ نمبردار ابراہیم کی وفات کے بعد ان کے بیٹے نمبردار نیاز علی چوھدری نے اپنی مرحوم والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے چوھدری نور حسین مرحوم کے ساتھ گہرے مراسم کو مزید تقویت پہنچائی اور دوستی اور تعلق داری کا یہ سلسلہ مزید گہرا ہوتا گیا۔ 1983ء میں بیرسٹر سلطان محمود چوھدری جب برطانیہ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس آئے اور عملی سیاست میں قدم رکھا تو چوھدری نور حسین مرحوم نے نمبردار نیاز علی چوھدری کے ساتھ بیرسٹر سلطان محمود چوھدری کا تعارف کروایا اور انہیں تاکید کی کہ اگر سیاست میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو نمبردار نیاز علی چوھدری کا ساتھ کبھی نہ چھوڑنا، تمہیں اس سے زیادہ مخلص ساتھی اور کوئی نہیں ملے گا۔ بیرسٹر سلطان محمود چوھدری اور نمبردار نیاز علی کے درمیان دوستی کا یہ سفر اتنا گہرا ہوگیا کہ جب بیرسٹر سلطان محمود چوھدری 1996میں وزیر آزادکشمیر بنے تو نمبردار نیاز علی کی ان سے قرابت داری کی وجہ سے لوگ انہیں ڈپٹی وزیر اعظم کے لقب سے پکارنے لگے۔بیرسٹر سلطان محمود چوھدری نے بطور وزیر اعظم برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر سے ملاقات کی تو اس سات رکنی وفد میں نمبردارنیاز علی چوھدری بھی شامل تھی جبکہ اس وقت کئی قدآور نام حسرت بھری نگاؤں سے باہر ہی کھڑے رہے۔ نمبردار نیاز علی چوھدری 1958کو پیدا ہوئے ۔ اگرچہ وہ کم تعلیمی پس منظر کے حامل تھے تاہم اپنی سوچ، فکر اور فہم و فراست سے انہوں نے وہ مقام حاصل کرلیا جو بڑوں بڑوں کو نصیب نہیں ہوتا۔ سیاست سے انہیں گہرا لگاؤ تھا اور وہ ٹیبل ٹاک کے ماہر جانے جاتے تھے۔ بڑے سے بڑا سیاسی لیڈر، وزیر اعظم، وزیر ، مشیر، صحافی، بیوروکریٹ، یاکسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والا شخص ان کے سامنے کوئی بھی بات کرنے سے پہلے کئی بار سوچتا تھا۔ نمبردار نیاز علی چوھدری 1987میں بی ڈی ممبر منتخب ہوئے۔ وہ ایک مرتبہ چیرمین زکوۃ بھی رہے۔ ان کو چوھدری نور حسین مرحوم کے قریبی ساتھی کو طور پر جانا جاتا تھا ۔لوگ انہیں چوھدری نور حسین کا شاگردِ خاص سمجھتے تھے۔ حلقہ نمبر دو میں الیکشن لڑنے والے امیدوران ان کا تعلق خواہ کسی بھی جماعت یا برادری سے ہو وہ نمبردار نیاز علی چوھدری سے سیاسی داؤ پیچ سیکھنا اپنی سعادت مندی سمجھتا تھا ۔ وہ نئے الیکشن لڑنے والوں کے لیے یونیورسٹی کا درجہ رکھتے تھے۔ ضلع میرپور کی صحافتی برادری کے ساتھ بھی ان کے خاص اور برادرانہ مراسم تھے اور ان کی حاضر دماغی اور برجستہ جملوں کی وجہ سے اعلیٰ پائے کے صحافی بھی ان کے سامنے لب کشائی کرنے سے پہلے کئی بار سوچتے تھے۔ نمبردار نیاز علی چوھدری نے مواہ کے اندر "ڈیرہ نمبرداراں"کے نام سے ایک ڈیرہ قائم کررکھا تھا جس میں ہر وقت سیاسی گہما گہمی رہتی تھی اور تمام سیاسی جماعتوں کے امیدواران اور کارکنان اپنی سیاسی پیاس بجھانے کے لیے یہاں آتے تھے۔ انتخابات یا پھر کسی بھی دوسری سیاسی گہما گہمی کے دور میں ڈیرہ نمبرداراں کی رونقیں عروج پر پہنچ جاتی تھیں اور دن و رات میلے کا سا سماں لگتا تھا۔ حلقہ بلکہ ضلع بھر کے سیاستدان جن کا آپس میں بڑے سے بڑا اختلاف ہی کیوں نہ ہونمبردار نیاز علی کی میز پر سب شیر و شکر ہوجاتے تھے۔ لوگوں کے ساتھ ان کے تعلقات علاقہ و برادری ازم سے بالا تر ہوکرتھے اور ان کے تعلقات ہر ایک کے ساتھ اتنے گہرے ہوتے کہ ہر کوئی انہیں اپنی برادری کا ہی سمجھتا۔ نمبردار نیاز علی مرحوم کچھ عرصہ قبل فیملی سمیت میرپور رہائش پذیر ہوگئے لیکن اپنے علاقہ کی عوام کے ساتھ انہوں نے تعلق کمزور نہ ہونے دیا۔ ڈیرہ نمبرداراں کا قیام اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھی۔ وہ ہر روز اپنے آبائی علاقہ میں آتے اور لوگوں سے ملاقاتیں کرتے۔ نمبردار نیاز علی چوھدری اگرچہ خود پڑھے لکھے نہیں تھے تاہم انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی ۔ ان کے فرزند چوھدری ابرار نیاز ایڈوکیٹ کا شمار منجھے ہوئے نوجوان وکلاء میں ہوتا ہے۔ ان کے ایک دوسرے فرزند غفار نیاز بھی اس وقت میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میرپور کے شعبہ لاء میں وکالت کی ڈگری حاصل کررہے ہیں۔ ان کے دیگر فرزند جبار ، افتخار اور نثار علی بھی اچھی سوچ، سمجھ و فراست کے حامل نوجوان ہیں اور اپنے والد کی طرح علاقہ کا درد اپنے دل میں رکھتے ہیں۔ لوگوں سے ملنساری اور اخلاق کے حوالے سے وہ اپنے مرحوم والد کی تصویر ہیں۔ نمبردار نیاز علی چوھدری کو اولیاء کرام سے خاص لگاؤ تھا اور وہ مختلف درباروں اور خانقاؤں پر حاضری دینا اپنی سعادت مندی سمجھتے تھے۔ پیر شاہ غازی دمڑیاں والی سرکار سے انہیں خاص عقیدت تھی اور وہ عرصہ تقریبا 30برس سے ہر ماہ کی پہلی جمعرات کو سیف الملوک کی محفل کا انعقاد کرتے تھے۔ دمڑیاں والی سرکار کے سالانہ عرس پاک کے موقع پر سینکڑوں جانور ذبح کرکے غرباء اور مساکین کے لیے لنگر کا اہتمام کرتے۔آستانہ عالیہ فیضپور شریف سے بھی خاص عقیدت رکھتے تھے اور حضرت علامہ مولانہ پیر محمد عتیق الرحمان مرحوم سے ان کے گہرے اور قریبی مراسم تھے۔ حضرت علامہ مولانہ حبیب الرحمان محبوبی سجادہ نشین دربار عالیہ فیضپور شریف کے ساتھ بھی گہرے مراسم تھے۔ حضرت پیر محمد زکریا نعمانی دربا ر عالیہ ڈنگروٹ شریف کے ساتھ بھی ان کے قریبی مراسم تھے اور وہ باقاعدگی سے دربارعالیہ ڈنگروٹ شریف پر حاضری دیتے تھے۔ اس کے علاوہ دربارعالیہ کوٹلی ستیاں، حجرہ شاہ مقیم، حضرت میر میراں دربار لاہور (پیر منور حسین شاہ)، بھیرہ شریف، اعوان شریف، گلہار شریف ، تنی شریف (پیر افضال حسین) ، پلیر شریف (ڈڈیال) ، شکریلہ شریف (پیر سید شہزاد حسین شاہ) سمیت دیگر کئی درباروں اور خانقاؤں پر باقاعدگی سے حاضری دیتے تھے۔ نمبردار نیاز علی چوھدری کو شکار کا بھی بہت زیادہ شوق تھے اور جب تک ان کی صحت ٹھیک رہی وہ باقاعدگی کے ساتھ شکار پر جایا کرتے تھے اورشکار کرکے اپنے دوستوں کو مدعو کرکے انہیں اپنا کیا ہوا شکار کھلاتے تھے۔ وہ باغبانی اور زمینداری سے بھی خاص شغف رکھتے تھے اور ڈیرہ نمبرداراں اور اپنی رہائش گاہ میرپور میں خاص طور پر لان تیار کروایا ہوا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ جب بھی کوئی ان کا قریبی ساتھی لان تیار کرنے کے بارے میں سوچتا تو وہ انہیں مفید مشوروں سے نوازتے۔ نمبردار نیاز علی چوھدری 10اکتوبر2018ء بروز بدھ مختصر علالت کے بعد پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس اسلام آباد میں اس دنیا کو خیر باد کہہ گئے۔ 
ٹُرچلے دلدار دلاں دے وطنوں چُک مہاراں
اجڑی بستی نظری آوے کَنڈ دتی جد یاراں
نمبردار نیاز علی چوھدری کی نماز جنازہ11اکتوبر بروز جمعرات ڈیرہ نمبرداراں کے نزدیک ادا کی گئی جس میں ضلع میرپور، بھمبر، کوٹلی اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔نماز جنازہ میں ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد موجود تھے۔ حضرت علامہ پیر محبوب الرحمان محبوبی سجادہ نشین دربار عالیہ فیضپور شریف نے نماز جنازہ پڑھائی۔ اس موقع پر سابق وزیرا عظم آزادکشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوھدری، سابق وزیر اعظم چوھدری عبدالمجید،اپوزیشن لیڈر چوھدری محمد یاسین، سابق امیدوار ان اسمبلی محمد نذیر انقلابی، چوھدری ظفر انور،محمد عارف چوھدری، سائیں ذوالفقار علی، چوھدری محمد رزاق، عظیم بخش چوھدری، سابق چیف جسٹس آزادکشمیر خان اعظم خان سمیت سابق ججز، بیوروکریٹس، پولیس، تعلیم،پریس ، عدلیہ کی کئی دیگر نامور شخصیات موجود تھیں۔ اس موقع پر سابق وزیر اعظم بیرسٹر سلطان محمود چوھدری سمیت ہر شخص آبدیدہ تھا۔ نماز جنازہ کے موقع پر بیرسٹر سلطان محمود چوھدری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نمبردار نیاز علی میرے دست راست تھے۔ میں نے جب عملی سیاست میں قدم رکھا تو میرے والد محترم چوھدری نور حسین مرحوم نے نمبردار نیاز علی سے میرا تعارف کروایا اور مجھے کہا کہ یہ شخص تمہارا مخلص ساتھی ثابت ہوگا اور کبھی بھی تمہارا ساتھ نہیں چھوڑے گا اور نمبردار نیاز علی نے یہ سچ ثابت کردیا۔ سیاست کے میدان میں اتارچڑھاؤ کے باوجود انہوں نے کبھی بھی میرا ساتھ نہیں چھوڑا اور اچھے اور برے وقت میں میرے ساتھ کھڑے رہے۔ ان جیسا سچا اور کھرا انسان میں نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھا۔ وہ ظاہر و باطن ایک جیسا تھا ۔ وہ ایک کھلی کتاب کی مانند تھے۔ مجھے ہمیشہ ان کی کمی محسوس ہوتی رہے گی۔ اس موقع پر دیگر مقررین نے کہا کہ نمبردار نیاز علی چوھدری درد دل رکھنے والے انسان تھے۔ وہ غربا و مساکین کی مدد کرتے۔ کبھی بھی کوئی ان کے در سے خالی نہیں گیا۔ وہ ایک ملنسار، شفیق ، ہنس مکھ انسان تھے۔ ان کی وفات سے علاقہ ایک ہمدرد شخصیت سے محروم ہوگیا ہے۔ ان جیسے انسان صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ نمبردار نیاز علی چوھدری ایک عہد سازشخصیت تھے اور حلقہ بھر میں ان جیسا کوئی دوسرا شخص نظر نہیں آتا۔ بلاشبہ ان کی وفات سے علاقہ یتیم ہوگیا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ پاک ان کی آخرت کی منازل آسان فرمائیں ، ان کے درجات میں بلندیاں عطا فرمائیں، ان کے لواحقین کو یہ عظیم صدمہ برداشت کرنے کا حوصلہ عطا فرمائیں اور ان کے فرزندان کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین۔ 
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیداور پیدا

چنار پریس کلب اسلام گڑھ میں سنٹرل یونین آف جرنلسٹس کی سلور جوبلی کا کیک کاٹ دیا گیا

سنٹرل یونین آف جرنلسٹس آزاد کشمیر کی سلور جوبلی کی تقریبات جاری آج چنار پریس کلب اسلام گڑھ میں CUJ اسلام گڑھ کے زیر اہتمام سلور جوبلی کی ایک پروقار تقریب کا انعقاد ہوا تقریب سے سابق صدر CUJ ضلع میرپور چوہدری عبدالرزاق نیازی صدر چنار پریس کلب اسلام گڑھ راجہ عرفان صادق سینئر صحافی الیاس راجپوت جاوید چوہدری حاجی خالد حسین غفور حسین مصطفوی وقار چوہدری ابرار مغل راجہ کامران پیر سید لطیف گیلانی نے سلور جوبلی تقریب سے خطاب کرتے ہوے کہا کے CUJ آزاد کشمیر کے صحافیوں کی ایک نمائندہ جماعت ہے جو آزاد کشمیر کے صحافیوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہی پے بانی صدر جناب ممتاز شمیم چوہدری مرحوم نے اپنی محنت اور صحافیوں کو درپیش مسائل کے حل کے لئے CUJ کی بنیاد رکھی آزاد کشمیر CUJ سے وابستہ تمام صحافی مبارکباد کے مستحق ہیں اور بلخصوص مرکزی صدر سنٹرل یونین آف جرنلسٹس آزاد کشمیر جناب محمد ظفیر بابا صاحب نے جس طرح CUJ کو فعال کیا اور آزاد کشمیر کے صحافیوں کے مسائل کے حل کے لئے عملی اقدامات اٹھائے اور بھرپور جدوجہد کی اس پر مرکزی قائد CUJ مبارکباد کے مستحق ہیں مرکزی صدر جناب ظفیر بابا صاحب آزاد کشمیر کے صحافیوں کی آواز بن چکے ہیں مرکزی صدر نے آزاد کشمیر سنٹرل یونین آف جرنلسٹس کو ایک نئی روح پھونک دی ہے جناب صدر نے آزاد کشمیر کے صحافیوں کو بھرپور محنت سے یکجا کر دیا جن علاقوں میں دو دو پریس کلب تھے ان کو یکجا کر دیا جناب ظفیر بابا صاحب آپ کی لازوال قیادت کو سلام اگر اس موقع پر قائد صحافت صدر کشمیر پریس کلب میرپور جناب سید عابد حسین شاہ صاحب کی کوششوں کو خراج تحسین پیش نہ کرنا بھی زیادتی ہے قائد صحافت جناب سید عابد حسین شاہ صاحب نے بھی جہاں آزاد کشمیر کے صحافیوں کے حقوق کی لڑائی لڑی وہاں میرپور کے عوام کی بھی آواز بن گئے اور میرپور کا بیٹا ہونے  کا ثبوت دیا جناب سید عابد حسین شاہ صاحب کی عظمت کو سلام --

Friday, October 19, 2018

زوبیا سکول فار اسپیشل چلڈرن اسلام گڑھ میں خسرہ کے ٹیکے لگانے کا کییمپ قائم کردیا گیا


زوبیا سکول فار اسپیشل چلڈرن کے تعاون سے نیوسٹی اسلام گڑھ میں خسرہ کے ٹیکے لگانے کے لیے کیمپ کا انعقاد کردیا گیا۔ زوبیا سکول فار اسپیشل چلڈرن کے روح رواں خواجہ ظفر اقبال نے بتایا کہ زوبیا سکول اسلام گڑھ میں محکمہ صحت کے تعاون سے خسرہ کے ٹیکے لگانے کے لیے کاونٹر قائم کردیا گیا ہے ۔ نیوسٹی اسلام گڑھ اور ملحقہ آبادیوں کے لوگ  9 ماہ سے 5 سال تک کے بچوں کو زوبیا سکول اسلام گڑھ میں آکر بالکل فری اپنے بچوں کو خسرہ سے بچاو کے ٹیکے لگوا سکتے ہیں۔ یہ کیمپ 27 اکتوبر تک جاری رہے گا





Monday, October 15, 2018

اسلام گڑھ کا ایک علمی باب بند ہوگیا، کنٹرولر عبدلحمید چل بسے


اسلام گڑھ کی علمی شخصیت اور محکمہ تعلیم میں دہائیوں تک خدمات سرانجام دینے والے کنٹرولر عبدالحمید وفات پاگئے۔مرحوم بطور سابق کنٹرولر امتحانات تعلیمی بورڈ میرپور اور ہیڈماسٹر بھی خدمات سرانجام دیتے رہے۔وہ
پروفیسر ڈاکٹر آصف حمید (شعبہ اردو
 کےوالد اور ڈینٹل سرجن ڈاکٹر زبیر اخترکے چچا تھے۔ان کی نماز جنازہ بروز منگل 3 بجے نیوسٹی اسلام گڑھ سیکٹر ڈی والے قبرستان کے نزدیک ادا کی جائے گی

Saturday, October 6, 2018

رٹھوعہ ہریام پل ۔۔۔۔۔۔۔۔اک خواب سے بھیانک خواب تک۔ تحریر راجہ عرفان صادق



چنار کہانی
رٹھوعہ ہریام پل ۔۔۔۔۔۔۔۔اک خواب سے بھیانک خواب تک
تحریر: راجہ عرفان صادق
27-09-2018
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا اور قومی و مقامی اخبارات میں یہ تصویر نظر سے گزری۔ یہ تصویرچند روز قبل صدر ریاست جناب سردار مسعود خان کے دورہ رٹھوعہ ہریام برج کے موقع پر لی گئی۔اکثر اخبارات میں اس حوالے سے خبر کچھ اس انداز میں لکھی گئی ہے صدر ریاست اچانک رٹھوعہ ہریام پل پر پہنچ گئے جس سے بیوروکریسی کی دوڑیں لگ گئیں۔ اگرصدر ریاست اچانک رٹھوعہ ہریام پل پہنچے تو پھر بیوروکریسی اور متعلقہ محکمہ کی مستعدی کی تعریف کرنا ہوگی کہ جناب صدر کے وہاں پہنچتے ساتھ ہی کرسیاں، میز اور ریفریشمنٹ کا سامان بھی وہاں اتنی چابکدستی سے پہنچ گیا اور تو اور چائے بسکٹس کےساتھ ساتھ میز پر سجانے کے لیے گلدستے بھی سجادیے گئے۔ ویسے یہ کوئی اتنے اچنبے کی بات بھی نہیں کیونکہ رٹھوعہ ہریام پل کے منصوبہ کو شروع ہوئے تقریبا 10سال کا عرصہ ہوچکا ہے اور اس پل کی تعمیر سے لے کر اب تک متعلقہ محکمہ سینکڑوں بریفنگز کا انتظام کرچکا ہے اس لیے یہ مستعدی کوئی غیر معمولی نہیں۔ سابق صدر پاکستان جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور حکومت میں شروع ہونے والا یہ پل سید یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، میاں محمد نواز شریف، شاہد خاقان عباسی سمیت مختلف نگران وزرائے اعظم کے بعد اب جناب عمران خان کے وزارت عظمی کے دور سے گزر رہا ہے ۔اگراس عرصہ کے دوران آزادکشمیر کی حکومتوں کی بات کی جائے تورٹھوعہ ہریام پل کو سردار سکندر حیات خان، سردار عتیق احمد خان، راجہ فاروق حیدر خان، سردار یعقوب خان، سردار عتیق احمدخان،چوھدری عبدالمجید کے بعد اب راجہ فاروق حیدر جیسے جید وزرائے اعظم کا ہم عصر ہونے کا اعزاز حاصل ہوچکا ہے۔ رٹھوعہ ہریام پل منگلاڈیم ریزنگ پراجیکٹ کے حوالے سے حکومت پاکستان، حکومت آزادکشمیر اورواپڈا کے درمیان طے پانے والے معاہدہ کا حصہ تھا اور معاہدہ کی رو سے حکومت پاکستان نے اس کی فنڈنگ کرنا تھی۔ پل کا ابتدائی تخمینہ 4ارب روپےتھا میں پل کی تعمیر اور میرپور اور اسلام گڑھ کی طرف اڑھائی اڑھائی کلومیٹر سڑک کے حصول کے لیے زمینوں کی خریداری اور سڑک کے اخراجات شامل تھے۔ تاہم وقت وفاق اور آزادکشمیر حکومتوں اور حکمرانوں کی عدم دلچسپی کے باعث یہ منصوبہ طوالت پکڑتاگیا اور کبھی پل کے ڈیزائن اور کبھی فنڈز کی عدم فراہمی کا بہانا بنا کر منصوبہ کو لٹکا دیا گیا اور چار ارب روپے سے شروع ہونے والا منصوبہ اب 10ارب کے قریب پہنچنے کوہے اورپل کی تکمیل تک نہ جانے کتنا مزید اضافہ ہوجائے گا۔ پل کی عدم تعمیر کے ساتھ اس سے ملحقہ منصوبے بھی ابھی تعطل کا شکار ہیں۔اسلام گڑھ کی طرف پل کی سڑک کے لیے خریدی گئی زمینوں کے دونوں اطراف نالیاں یا سیوریج سسٹم کا منصوبہ تھا تاہم ابھی تک اس منصوبہ کو بھی مکمل نہیں کیا گیا۔سڑک کی تعمیر کے لیے حاصل کی گئی اراضی پر کم از کم 8فٹ اور زیادہ سے زیادہ 20فٹ تک فلنگ کرکے سڑک کے لیول کو زمینداروں کی زمینوں سے اونچا کردگیا جو اب مقامی افراد کے لیے وبال جان بن چکی ہیں۔ ایک تو نکاسی آب نہ ہونے کی وجہ سے ان زمینوں میں بارش کا پانی کھڑا ہوجاتا ہے جس سے ان میں فصلیں ناقابال کاشت ہیں دوسری طرف سے بڑھتی ہوئی آبادی اور کمرشل ایریا کے لیے بھی یہ جگہ ناقابل استعمال ہے کیونکہ ان میں نکاسی آب سرے سے ہی موجود نہیں۔ اوپر سے سڑک کے پانی کو بھی ان زمینوں میں لگا دیا گیا ہے۔ رٹھوعہ ہریام پل کی تاخیر میں جہاں وفاق و ریاست کی حکومتوں اور متعلقہ محکمہ جات کو مورد الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے وہیں پر ضلع میرپور کی سیاسی قیادت بھی اس میں برابر کی شرک ہے ۔ ضلع میرپور کی سیاسی قیادت جن میں سابق وزرائے اعظم بیرسٹر سلطان محمود چوھدری، سابق وزیر اعظم چوھدری عبدالمجید (جن کی وزارت عظمیٰ کا دور اس منصوبہ کے دوران ہے) موجودہ ممبر اسمبلی اور وزیر ایم ڈی ایچ اے چوھدری محمد سعید، سابق امیدور اسمبلی محمد نذیر انقلابی، چوھدری افسر شاہید، چوھدری مسعود خالد شامل ہیں کبھی بھی اس منصوبہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور نہ ہی کبھی وفاقی حکومت پر اس کو جلد از جلد مکمل کرنے کے لیے دباو ڈالا۔ اگر میرپور کی سیاسی قیادت اپنے سیاسی اختلافات کو بھلا کر اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر تگ و دو کریں تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ محض ایک سال کے عرصہ کے اندر اندر یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ سکتاہے۔ رٹھوعہ ہریام پل کے حوالے سے اگر کبھی کسی نے آواز بلند کی ہے تو وہ میرپور و اسلام گڑھ کی تاجر برادری ،سیاسی کارکنان، سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ اور صحافی حضرات شامل ہیں تاہم بڑے سیاسی کارکنان کی آواز اس میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے یہ آوازیں بھی غیر موثر ہوگئیں۔ رٹھوعہ ہریام برج کی تکمیل کے لیے ہم سب کو مل کو موثر انداز میں ایک تحریک چلانے کی ضروت ہے تاکہ جلد سے جلد اس منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچوا کر میرپور سمیت کوٹلی اور بھمبر کے اضلاع کی عوام کو اس سے مستفید کروایا جائے بصورت دیگر اس طرح کی تصاویر اور مناظر مزید 10سالوں تک ہمیاری نظروں کے سامنے سے گزرتے رہیں گئے اور رٹھوعہ ہریام پل ہم سب کے لے ایک بھیانک خواب کی حیثیت اختیار جائے گا۔ ایسا خواب جس کو دیکھنے سے خوف طاری ہوتا ہے اور آنکھ کھل جانے کی صورت میں بھی حقیقت آشکارا ہونے کا ڈر رہتا ہے۔

How to create You Tube Channel

 How to create you tube channel YouTube is one of the most famous platforms for creating websites, video games, and more. Most of the intern...